دیواروں سے ڈیجیٹل دیواروں تک: تاریخ، تہذیب اور سوشل میڈیا کا سفر
**انسانی تاریخ اور ہماری دیواریں: ماضی سے حال تک**
جب انسان نے تہذیب کی بنیاد رکھی، تب ہی سے اس نے اپنے خیالات اور جذبات کے اظہار کے لیے مختلف طریقے اپنائے۔ ہزاروں سال پرانی تہذیبوں کی نشانیاں آج بھی ہمیں ان لوگوں کے بارے میں بہت کچھ بتاتی ہیں جو وہاں آباد تھے۔ مصر کے عظیم اہرام، موئن جو دڑو کی تہذیب، اور قدیم غاروں کی دیواریں، یہ سب اپنے اندر کہانیاں، راز، اور یادیں سموئے ہوئے ہیں۔ ہر دیوار پر ایک پیغام ہوتا ہے، ایک کہانی جسے وہ وقت کی قید سے آزاد ہو کر آنے والی نسلوں تک پہنچاتی ہیں۔
یہ محاورہ عام ہے کہ “دیواروں کے بھی کان ہوتے ہیں”، لیکن حقیقت میں ان دیواروں کی زبان زیادہ لمبی ہوتی ہے، جو ہزاروں سال بعد بھی اپنی کہانیوں کو پکارتی رہتی ہے۔ وہ اپنے مکینوں کی زندگیوں اور معاشرتی رویوں کا احوال بیان کرتی ہیں۔ ان پر درج تصویریں اور تحریریں آنے والی نسلوں کو ان کی تہذیب اور ثقافت کے بارے میں آگاہ کرتی ہیں۔
**موجودہ دور کی دیواریں: تبدیلی کا سفر**
آج ہماری دیواروں پر وہ کہانیاں نہیں ملتیں، بلکہ عامل بابوں کے دعوے، نیم حکیموں کے اشتہارات اور گوبر کے ڈیزائن نظر آتے ہیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ ہم نے اپنے خیالات اور جذبات کا اظہار بھی تبدیل کر دیا ہے۔ جہاں ایک وقت تھا کہ ہم مٹی کی دیواروں پر اپنے قصے کہانیاں لکھتے تھے، اب ہم ان خیالات کو ’’ڈیجیٹل دیواروں‘‘ پر لکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں ایک چھوٹا سا پیغام یا ویڈیو لاکھوں لوگوں تک پہنچ جاتی ہے، اور اس پر فوری ردعمل بھی آتا ہے۔
یہ تبدیلی، جو کہ الیکٹرانک دور کا نتیجہ ہے، ہمیں ایک نئی سمت میں لے جا رہی ہے۔ اب ہمارے خیالات صرف تحریری دیواروں پر نہیں بلکہ فیس بک، انسٹاگرام، ٹویٹر جیسے پلیٹ فارمز پر نقش ہو رہے ہیں۔
**فیس بک: دیواروں سے ڈیجیٹل دیوار تک کا سفر**
فیس بک کے بانی مارک زکربرگ ایک یہودی خاندان سے تعلق رکھتے ہیں، اور یہودی اپنی تاریخ کو ہمیشہ یاد رکھتے ہیں۔ ہر یہودی کے کام میں تاریخ کا کوئی نہ کوئی پہلو چھپا ہوتا ہے۔ فیس بک کی “وال” کا تصور بھی دراصل قدیم مصر کی دیواروں سے ماخوذ ہے، جہاں غلامی اور دکھ بھری داستانیں لکھی گئی تھیں۔
ہم اپنی روزمرہ کی باتیں، خیالات، سیاسی اور مذہبی رجحانات فیس بک پر شیئر کرتے ہیں، اور یہ ہماری جدید تہذیب کی “دیواریں” بن چکی ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک نیا طبقہ بھی پیدا ہو چکا ہے جو ان پلیٹ فارمز کو صرف گالی گلوچ اور غیر اخلاقی گفتگو کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چاہے سیاسی جماعتیں ہوں یا مذہبی گروہ، سوشل میڈیا پر مخالفین پر حملے کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی جاتی۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہم اخلاق اور تہذیب کی حدود کو پار کرتے ہوئے دوبارہ زمانۂ جاہلیت کی طرف لوٹتے ہیں۔
**سوشل میڈیا اور ہماری اخلاقی زبوں حالی**
آج کل اگر کسی مذہبی جماعت کے خلاف ذرا سا بھی کچھ کہہ دیا جائے تو وہ فورا آپ کو اسلام سے خارج کرنے پر تل جاتے ہیں، اور بعض اوقات تو فیس بک پر ہی آپ کے قتل کو جائز قرار دیا جاتا ہے۔ اسی طرح کسی سیاسی جماعت کی مخالفت میں بات کرنا گویا اپنی جان خطرے میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ ایک چھوٹا سا کمنٹ کافی ہوتا ہے کہ سیاسی جماعتوں کے حمایتی آپ پر حملہ آور ہو جائیں، اور آپ کو غدار قرار دینے کے لیے ہر ممکن کوشش کی جائے۔
ہم بھول چکے ہیں کہ ہماری لکھی ہوئی باتیں اور پوسٹیں، چاہے وہ کتنی ہی وقتی کیوں نہ ہوں، آنے والی نسلوں کے لیے ایک نوشتۂ دیوار بن جاتی ہیں۔ یہ الفاظ ہمارے کردار کی عکاسی کریں گے، اور ہزاروں سال بعد جب ماہرین ان کو دریافت کریں گے، تو وہ ہمیں ایک تنگ نظر اور انتہا پسند قوم کے طور پر جانیں گے۔
**آنے والی نسلوں کے لیے پیغام**
یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہم آج دنیا کے سامنے کس طرح پیش آ رہے ہیں، اور ہماری ڈیجیٹل دیواروں پر لکھی ہوئی باتیں ہمارے بارے میں کیا کہانی سنائیں گی۔ اگر آج کسی نیوز چینل پر یہ خبر چلتی ہے کہ ماہرین نے ایک ایسی قوم کے آثار دریافت کیے ہیں جن کی دیواروں پر گوبر کے ڈیزائن ملے ہیں، تو اس سے کیا تاثر ابھرے گا؟
یہ ایک لمحہ فکریہ ہے کہ ہم اپنی تحریروں اور پوسٹوں کے ذریعے آنے والی نسلوں کو کیا پیغام دے رہے ہیں۔ ہمیں چاہیے کہ سوشل میڈیا پر کچھ بھی پوسٹ کرنے سے پہلے اس بات کا خیال رکھیں کہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے کیا وراثت چھوڑ رہے ہیں۔ ہمارا ہر لفظ ہماری تہذیب اور شخصیت کا عکاس ہے، اور ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ الفاظ ہمیں کیسے پیش کریں گے۔
**نتیجہ: ذمہ داری کا احساس**
دیواریں ہمیشہ باتیں کرتی ہیں، چاہے وہ مٹی کی ہوں یا ڈیجیٹل۔ ہمیں ان دیواروں پر لکھی گئی باتوں کے نتائج پر غور کرنا چاہیے، کیونکہ یہ ہمارے کردار کی نمائندگی کریں گی۔ اس لیے، ہر پوسٹ، ہر کمنٹ اور ہر شیئر سے پہلے سوچیے کہ آپ آنے والی نسلوں کے لیے کیا نقش چھوڑ رہے ہیں۔